Saturday 28 September 2024

تپش کو مٹا دے فضائیں سجا دے

شفاعت


تپش کی فضا ہے

ذرا سی بلندی پہ وحشی الاؤ جلایا گیا ہے

پرانی سی مٹی کا ادنٰی سا ڈھیلا

کسی آتشی دھات سے پُر زمیں پر پڑا سوچتا ہے

کہ اس کا دوامی ٹھکانہ کہاں ہے

وہ کیا اب ہمیشہ تپش کے تنوروں کا ایندھن بنے گا

اسی بات کا خوف اندر سے بھی اس کو جھلسا رہا ہے

تپش ہی تپش ہے

جلن ہی جلن ہے

مگر وہ جلن کو سہے جا رہا ہے

بس امید کی اک کرن کے بھروسے

کہ شاید اچانک بدل جائے منظر

کہ شاید یکایک کرامت ہو ظاہر

جو وحشی الاؤ کو رحمت بنا دے

تپش کو مٹا دے

فضائیں سجا دے

جو مٹی کے ڈھیلے کو پُر نور کر کے

اسے ایک روشن ستارہ بنا دے

پھر اس کو دوامی فلک پر سجا دے

پرانی سی مٹی کا ادنٰی سا ڈھیلا

زمانے سے ہے منتظر اس گھڑی کا

کہ بدلے نظارہ

کرامت ہو ظاہر

اٹھیں اس کی جانب

وہ راحم نگاہیں


عبیدالرحمٰن نیازی

No comments:

Post a Comment