کیا کچھ وہ مقام اپنا بھی پہچان رہے ہیں
جو لوگ کہ دِن رات خلا چھان رہے ہیں
اب ان کی جبیں ظلمت و نفرت کی جبیں ہے
جو کہتے ہیں انسان کہ انسان رہے ہیں
یہ شاخیں کہ دامن میں کوئی پھول نہیں ہے
کیا خاک وہ گلشن کے نگہبان رہے ہیں
تم ماضی کو لوٹو یا کرو حال کی باتیں
ہم آگے بہت آگے کی اب ٹھان رہے ہیں
احساس کا پرتو بھی خُدا کہتا ہے خود کو
کیوں چُپ ہیں اگر آپ یہ سب جان رہے ہیں
ہم بھی ہیں تہی دست منیب آج تو کیا ہے
ہم جیسے کئی بے سر و سامان رہے ہیں
منیب برہانی
No comments:
Post a Comment