ہماری گائیکی ہے بر سرِ فریاد طبلے پر
ہمارے حُسن ظن کو مل رہی ہے داد طبلے پر
گویوں کے گھرانے کو عجب شوق ریاضت ہے
کہ سنگت کر رہی ہے باپ کی اولاد طبلے پر
کلاسیکی دُھنوں کے خشمگیں بیباک لہجے میں
سجائی کس نے ہے یہ ظلم کی بنیاد طبلے پر
زمانے میں کہاں باقی رہا سُر تال کا نقشہ
تعجب ہے کہ سب کچھ ہو گیا برباد طبلے پر
سناتے ہی رہے نااہل اپنی راگنی اب تک
کبھی آسیب طبلے پر کبھی ہمزاد طبلے پر
لٹی ہیں رونقیں دیوار و در پر کسمپرسی ہے
پڑی ہے کوچۂ دلبر میں کیا افتاد طبلے پر
گلی کوچوں میں اس کی خوشنوائی کا اجالا ہے
ثقافت ہو چکی ہے اس قدر آزاد طبلے پر
ذرا مرغوب تم اس پاپ سنگر پر نظر رکھنا
وہ بیٹھا لگ رہا ہے مجھ کو اک جلاّد طبلے پر
میاں مرغوب
No comments:
Post a Comment