Sunday, 22 September 2024

ایسے ویسے جانے کیسے آج سیاست والے ہیں

 المیہ


ایسے ویسے جانے کیسے آج سیاست والے ہیں

اندھوں میں کانے راجا کو سر پہ چڑھا کر پھرتے ہیں

ہندو مسلم، مندر مسجد راگ الاپا جاتا ہے

چلتے پھرتے آتے جاتے راگ یہی وہ گاتے ہیں

دہشت گردی کے مجرم سب، آج سیاسی آقا ہیں

میرے بھارت کو ان ہی غدار سے لاحق خطرے ہیں

مذہب کے مدعے پر ٹکڑے قوم کے کرنے والے اب

اصلی چہرہ ڈھانکے، نقلی قوم پرستی لائے ہیں

مرتا ہے دہقاں ہر دن سولی پہ، یہ کیسا عالم ہے

دھرتی ہڑپی جاتی ہے، یوں کھیل یہ کھیلے جاتے ہیں

آب و دانہ ڈھونڈے ہے، انسان پریشاں بھٹکے ہے

ملکوں ملکوں، شہروں شہروں کیسے یہ تانے بانے ہیں

آوازیں آتی جاتی ہیں، آہ و بکا یہ کیسی ہے

الفت ان کو کیسے لکھتا، لفظ کے پیکر جلتے ہیں


الفت عالمی

No comments:

Post a Comment