المیہ
ایسے ویسے جانے کیسے آج سیاست والے ہیں
اندھوں میں کانے راجا کو سر پہ چڑھا کر پھرتے ہیں
ہندو مسلم، مندر مسجد راگ الاپا جاتا ہے
چلتے پھرتے آتے جاتے راگ یہی وہ گاتے ہیں
دہشت گردی کے مجرم سب، آج سیاسی آقا ہیں
میرے بھارت کو ان ہی غدار سے لاحق خطرے ہیں
مذہب کے مدعے پر ٹکڑے قوم کے کرنے والے اب
اصلی چہرہ ڈھانکے، نقلی قوم پرستی لائے ہیں
مرتا ہے دہقاں ہر دن سولی پہ، یہ کیسا عالم ہے
دھرتی ہڑپی جاتی ہے، یوں کھیل یہ کھیلے جاتے ہیں
آب و دانہ ڈھونڈے ہے، انسان پریشاں بھٹکے ہے
ملکوں ملکوں، شہروں شہروں کیسے یہ تانے بانے ہیں
آوازیں آتی جاتی ہیں، آہ و بکا یہ کیسی ہے
الفت ان کو کیسے لکھتا، لفظ کے پیکر جلتے ہیں
الفت عالمی
No comments:
Post a Comment