عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
خادمِ محفلِ سرکارِ دو عالم ہوتا
خدمتِ پائے رسالت پہ منظّم ہوتا
لمعہِ پائے رسالت پہ میں نعتیں کہتا
زُلف والَّیل تو مازاغ بصارت لکھتا
اُن کے رخسار کو تشبیہ سحر سے دیتا
اُن کی پُر نور صباحت پہ میں نعتیں کہتا
ان کے اوصافِ یگانہ کے میں نغمے گاتا
داد و تحسین کے کلمات کچھ ان سے پاتا
ان کے اندازِ عنایت پہ میں نعتیں کہتا
ان کی دہلیز پہ سر رکھ کے بِتاتا شب کو
صبح ہوتی تو میں پھر تکتا حبیبِ رب کو
روز و شب شاہ کی صورت پہ میں نعتیں کہتا
ہائے کس شان سے صحراؤں میں کِھلتے گلزار
اُن کی رحمت سے گلے ملتے مہاجر، انصار
منفرد درسِ اُخُوّت پہ میں نعتیں کہتا
مسکراتے وہ مجھے پاس بلا کر کہتے
چھت میسر نہیں گرچہ تو یہیں پر رہتے
ہائے اس شانِ لطافت پہ میں نعتیں کہتا
کاش اُس دور میں ہوتا میں گدائے سلطاں
مجھ سے عاصی پہ ہُوا کرتا مسلسل فیضاں
بیشک اِس بحرِ سخاوت پہ میں نعتیں کہتا
فیضان رضا
No comments:
Post a Comment