Sunday 22 September 2024

میں نے کب چاہا تھا کہ طور پہ جلوہ دیکھوں

 میں نے کب چاہا تھا کہ  طور پہ جلوہ دیکھوں

میں تو خواہاں تھا  کہ تجھ کو پس پردہ دیکھوں

تُو خدا ہے میرا، اتنا تو مِرا بھی حق ہے

تیرا ، آیات کی چلمن سے  سراپا دیکھوں

میں موحد ہوں مجھے صرف تمہیں دیکھنا ہے 

کون کافر ہے جو چاہے گا کہ تجھ سا دیکھوں

ہو کے سیراب بھلا کیا لب دریا جاتا 

میں نے سوچا تھا کہ میں پیاس میں دریا دیکھوں 

میں نے لیلیٰ کا تعاقب کیا مجنوں کی طرح

میری خواہش تھی کہ میں ڈوب کے صحرادیکھوں

کوچۂ اہل کرم تک میں فقیرانہ گیا

تاکہ غالب کی طرح ان کا تماشا دیکھوں

اس تمنا میں تو بینائی بھی جا سکتی ہے

کہ میں ان آنکھوں سے جو دیکھوں وہ اچھا دیکھوں

میرے محدود وسائل میرے آڑے آئے

ورنہ خواہش تھی کہ میں بھی تیری دنیا دیکھوں

جاتے جاتے جو  تو لوٹ آنے کا وعدہ کر لے

عمر بھر بیٹھ کے دہلیز پہ رستہ دیکھوں


علمدار حسین نقوی

No comments:

Post a Comment