Sunday 22 September 2024

ٹوٹی ہے ڈور سانس کی منزل کے آس پاس

 ٹوٹی ہے ڈور سانس کی منزل کے آس پاس

پہنچے جو یار ہم کبھی منزل کے آس پاس

کچھ اور تو نہیں فقط اتنا ہی یاد ہے

بچھڑے تھے ہمسفر سبھی منزل کے آس پاس

دل دشت آرزو میں بھٹکتا رہا سدا

منزل کی جستجو رہی منزل کے آس پاس

یاروں نے اپنے اپنے ٹھکانے بنا لیے

مِری نظر گڑی رہی منزل کے آس پاس

کیا جانیے طلسمِ تمنا تھا یا کچھ اور

چلتا رہا میں ہر گھڑی منزل کے آس پاس

تیری طلب میں جذبے سبھی سرد ہو گئے

دوپہر عمر کی ڈھلی منزل کے آس پاس

کیفی بکھر گئیں سبھی خوابوں کی کرچیاں

آنکھوں سے دل کی جب ٹھنی منزل کے آس پاس


کیفی فریدی

No comments:

Post a Comment