ٹوٹی ہے ڈور سانس کی منزل کے آس پاس
پہنچے جو یار ہم کبھی منزل کے آس پاس
کچھ اور تو نہیں فقط اتنا ہی یاد ہے
بچھڑے تھے ہمسفر سبھی منزل کے آس پاس
دل دشت آرزو میں بھٹکتا رہا سدا
منزل کی جستجو رہی منزل کے آس پاس
یاروں نے اپنے اپنے ٹھکانے بنا لیے
مِری نظر گڑی رہی منزل کے آس پاس
کیا جانیے طلسمِ تمنا تھا یا کچھ اور
چلتا رہا میں ہر گھڑی منزل کے آس پاس
تیری طلب میں جذبے سبھی سرد ہو گئے
دوپہر عمر کی ڈھلی منزل کے آس پاس
کیفی بکھر گئیں سبھی خوابوں کی کرچیاں
آنکھوں سے دل کی جب ٹھنی منزل کے آس پاس
کیفی فریدی
No comments:
Post a Comment