کتنا برداشت کروں، کتنا ہے اس خاک میں دم
کر دیا ہے تیری اُلفت نے میری ناک میں دم
یہ کہو چاند میرا مجھ سے گریزاں ہے جناب
ورنہ کیا مجھ کو چڑھانے کا ہے افلاک میں دم
جان جائے گی مگر دل نہ ہٹے گا پیچھے
اتنا تو رکھتے ہی ہیں، ہم دل بے باک میں دم
ڈوب جاتا ہے فقط ایک ہی قطرے میں جہاں
کم نہ سمجھیں ہے بہت دیدۂ نمناک میں دم
صرف تصویر نہیں اس نے بنائی گویا
جان بھی ڈال گیا کتنا ہے اس چاک میں دم
ان کے کاٹے کا کوئی کاٹ نہ تعویذ ملا
کام آیا نہ کوئی درد المناک میں دم
روک رکھا ہے ہواؤں کو جو ان تنکوں نے
کس نے پھوکا ہے بھلا ان خس و خاشاک میں دم
دم کبھی گھٹنے لگا گر تو انہیں دیکھ لیا
ہوگیا پھر تو بحال ایک ہی خوراک میں دم
عشق کر بیٹھیں اگر آج کے شاعر شامی
ایک لمحہ بھی نہ لے پائیں گےاس خاک پہ دم
فیروز شامی
No comments:
Post a Comment