بچ گیا میں
دیکھتا ہوں کہ زمیں کالی دھواں تھی
ہر طرف تھیں لہلہاتی کالی فصلیں
جن کے شاخوں کی جگہ بازو تھے نکلے
اور ہر پتے سے آنکھیں گھورتی تھیں
گہری کالی گھورتی سفاک آنکھیں
کچھ پرندے ایک برگد پر تھے بیٹھے
اور وہ اُس پیڑ پر لٹکے ہوئے بے جسم
چہرہ نوچ کھانے میں مگن تھے
اور ہر لمحہ وہاں اس میلوں پھیلے
کالے برگد پر کئی لاکھوں کروڑوں
کالے چہرے جنم لیتے اور نوچے جا رہے تھے
جن کی کالی میلوں تک پھیلی ہوئی شاخوں
سے لپٹی بے زبانیں، اُن نُچے چہروں
سے بہتا خون چُوسے جا رہی تھیں
ایک جانب تھی سکوتِ ناتواں کی انجمن تو
دوسری جانب برہنہ شور کا تھا رقص جاری
کالے پہناؤں میں لپٹا کالا رقص
اُن نُچے ادھڑے ہوئے چہروں کی خاطر تھا وہاں پر
میں نے سوچا میں کہاں اِس کالی دھرتی آسماں میں پھنس گیا ہوں
میں کہاں ہوں؟
دیکھتا ہوں
میں وہیں ہوں اور جسم و روح کے بِن ایک چہرہ ہوں وہاں
جو اُن گِدھوں سے نُچ رہا ہے
اور
اَلارم بج رہا تھا
تحسین گیلانی
No comments:
Post a Comment