Tuesday 24 September 2024

دیکھتا ہوں کہ زمیں کالی دھواں تھی

 بچ گیا میں


دیکھتا ہوں کہ زمیں کالی دھواں تھی 

ہر طرف تھیں لہلہاتی کالی فصلیں

جن کے شاخوں کی جگہ بازو تھے نکلے 

اور ہر پتے سے آنکھیں گھورتی تھیں 

گہری کالی گھورتی سفاک آنکھیں 

کچھ پرندے ایک برگد پر تھے بیٹھے 

اور وہ اُس پیڑ پر لٹکے ہوئے بے جسم 

چہرہ نوچ کھانے میں مگن تھے

اور ہر لمحہ وہاں اس میلوں پھیلے 

کالے برگد پر کئی لاکھوں کروڑوں 

کالے چہرے جنم لیتے اور نوچے جا رہے تھے

جن کی کالی میلوں تک پھیلی ہوئی شاخوں 

سے لپٹی بے زبانیں، اُن نُچے چہروں 

سے بہتا خون چُوسے جا رہی تھیں 

ایک جانب تھی سکوتِ ناتواں کی انجمن تو 

دوسری جانب برہنہ شور کا تھا رقص جاری

کالے پہناؤں میں لپٹا کالا رقص 

اُن نُچے ادھڑے ہوئے چہروں کی خاطر تھا وہاں پر 

میں نے سوچا میں کہاں اِس کالی دھرتی آسماں میں پھنس گیا ہوں

میں کہاں ہوں؟

دیکھتا ہوں

میں وہیں ہوں اور جسم و روح کے بِن ایک چہرہ ہوں وہاں

جو اُن گِدھوں سے نُچ رہا ہے 

اور 

اَلارم بج رہا تھا


تحسین گیلانی

No comments:

Post a Comment