اک دیا رات گئے دل میں جلانا تھا ابھی
تجھ کو پانے کے لیے خود کو بھلانا تھا ابھی
درد چمکا ہی نہیں تھا جو، سجایا دل پر
حرف لکھا ہی نہیں تھا جو، مٹانا تھا ابھی
ہاں، کسی خواب کو تعبیر سے رکھنا تھا جدا
ہاں، کسی یاد کو خوش رنگ بنانا تھا ابھی
اس کو بھی چاٹ گئی تازہ ہوا کی دیمک
اک مکاں شہر کے نقشے میں پرانا تھا ابھی
آن پہنچا ہوں سر منزل موہوم، عطا
اپنے ہونے کی طرف میں جو روانہ تھا ابھی
قاضی عطاءالرحمٰن
No comments:
Post a Comment