بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا
کس درجہ ہو گی کارگر اس کو دوا سے کیا
جھلسا کے رکھ دیا جسے باد سموم نے
غنچوں سے کیا غرض اسے باد صبا سے کیا
مذہب کا کیا کرے، اسے ذکر خدا سے کیا
رہنے کو جھونپڑا بھی نہ جس شخص کو ملے
اس کو سزا کی فکر کیا اس کو جزا سے کیا
جس کے بدن پہ گوشت دکھائی نہ دے کہیں
اس آدمی کو روح کی نشو و نما سے کیا
تنگ آ چکا ہو کشمکش زندگی سے جو
کیا مہ وشوں سے کام اسے دل ربا سے کیا
فکر معاش ہی سے نہ فرصت ملے جسے
شعر و ادب سے کیا اسے مہر و وفا سے کیا
سنتا ہو جو ضمیر کی آواز دوستو
اس کو کسی خضر سے کسی رہنما سے کیا
رہتا ہو اپنی ذات میں جو مست ہر گھڑی
اس کو سرائے دہر کی آب و ہوا سے کیا
کہنا ہو جو بھی آپ اسے برملا کہیں
لفظوں کے ہیر پھیر سے طرز ادا سے کیا
امیر چند بہار
No comments:
Post a Comment