Saturday 21 September 2024

بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا

 بجھ جائے دل بشر کا تو اس کو شفا سے کیا

کس درجہ ہو گی کارگر اس کو دوا سے کیا

جھلسا کے رکھ دیا جسے باد سموم نے

غنچوں سے کیا غرض اسے باد صبا سے کیا

مذہب کا کیا کرے، اسے ذکر خدا سے کیا

رہنے کو جھونپڑا بھی نہ جس شخص کو ملے

اس کو سزا کی فکر کیا اس کو جزا سے کیا

جس کے بدن پہ گوشت دکھائی نہ دے کہیں

اس آدمی کو روح کی نشو و نما سے کیا

تنگ آ چکا ہو کشمکش زندگی سے جو

کیا مہ وشوں سے کام اسے دل ربا سے کیا

فکر معاش ہی سے نہ فرصت ملے جسے

شعر و ادب سے کیا اسے مہر و وفا سے کیا

سنتا ہو جو ضمیر کی آواز دوستو

اس کو کسی خضر سے کسی رہنما سے کیا

رہتا ہو اپنی ذات میں جو مست ہر گھڑی

اس کو سرائے دہر کی آب و ہوا سے کیا

کہنا ہو جو بھی آپ اسے برملا کہیں

لفظوں کے ہیر پھیر سے طرز ادا سے کیا


امیر چند بہار

No comments:

Post a Comment