عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
زمانہ جب خزاں کی دھوپ میں صدیاں گزار آیا
پکار اٹھیں فضائیں باغ میں جان بہار آیا
شب تاریک لمبی ختم ہونے میں نہ آتی تھی
وہ جب خورشید نکلا ظلمت شب کو نکھار آیا
ہوائیں بگڑی تہذیبوں کا نوحہ کرتی پھرتی تھیں
وہ اک اُمی تھا، جو تہذیب کا چہرہ سنوار آیا
فلک تھا مضطرب یہ کیسی وحشت ڈیرہ ڈالے ہے
اچانک وادئ بطحا سے کوئی غمگسار آیا
حیات جاودانی بھر گئی جب خار فانی سے
وہ آئے بزم ہستی میں تو سامان بہار آیا
عجب تھی بیقراری درد مندوں، بے نواؤں کی
وہ جب آئے تو سارے بے قراروں کو قرار آیا
کسی معیار پر پورا نہیں اترے کبھی فیضی
ثناء گویان احمدﷺ میں مگر دیکھو شمار آیا
مبشر حسین فیضی
No comments:
Post a Comment