Monday 30 September 2024

زمانہ جب خزاں کی دھوپ میں صدیاں گزار آیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


زمانہ جب خزاں کی دھوپ میں صدیاں گزار آیا

پکار اٹھیں فضائیں باغ میں جان بہار آیا

شب تاریک لمبی ختم ہونے میں نہ آتی تھی

وہ جب خورشید نکلا ظلمت شب کو نکھار آیا

ہوائیں بگڑی تہذیبوں کا نوحہ کرتی پھرتی تھیں

وہ اک اُمی تھا، جو تہذیب کا چہرہ سنوار آیا

فلک تھا مضطرب یہ کیسی وحشت ڈیرہ ڈالے ہے

اچانک وادئ بطحا سے کوئی غمگسار آیا

حیات جاودانی بھر گئی جب خار فانی سے

وہ آئے بزم ہستی میں تو سامان بہار آیا

عجب تھی بیقراری درد مندوں، بے نواؤں کی

وہ جب آئے تو سارے بے قراروں کو قرار آیا

کسی معیار پر پورا نہیں اترے کبھی فیضی

ثناء گویان احمدﷺ میں مگر دیکھو شمار آیا


مبشر حسین فیضی

No comments:

Post a Comment