اپنی ہی ذات کے اثبات سے ڈر لگتا ہے
میں وہ جگنو ہوں جسے رات سے ڈر لگتا ہے
جانے کس حال میں رکھے گا ہمیں آپ کا غم
آپ کے غم کی کرامات سے ڈر لگتا ہے
میرے سائے سے بھی رکھتا ہے بچا کر خود کو
وہ جسے وصل کے لمحات سے ڈر لگتا ہے
ہِل نہ جائے کہیں بنیاد میرے اشکوں کی
پے بہ پے وقت کے صدمات سے ڈر لگتا ہے
میرے سینے میں دھڑکتی ہیں دعائیں لیکن
میرے ہونٹوں کو مناجات سے ڈر لگتا ہے
مُڑ کے پیچھے کی طرف کس طرح دیکھوں کہ مجھے
اپنے قدموں کے نشانات سے ڈر لگتا ہے
جم نہ جائے مِری پلکوں پہ تِری یاد کی گرد
شیشۂ خواب کی سوغات سے ڈر لگتا ہے
سفیان صفی
No comments:
Post a Comment