Tuesday 24 September 2024

اپنی ہی ذات کے اثبات سے ڈر لگتا ہے

اپنی ہی ذات کے اثبات سے ڈر لگتا ہے

میں وہ جگنو ہوں جسے رات سے ڈر لگتا ہے

جانے کس حال میں رکھے گا ہمیں آپ کا غم

آپ کے غم کی کرامات سے ڈر لگتا ہے

میرے سائے سے بھی رکھتا ہے بچا کر خود کو

وہ جسے وصل کے لمحات سے ڈر لگتا ہے

ہِل نہ جائے کہیں بنیاد میرے اشکوں کی

پے بہ پے وقت کے صدمات سے ڈر لگتا ہے

میرے سینے میں دھڑکتی ہیں دعائیں لیکن

میرے ہونٹوں کو مناجات سے ڈر لگتا ہے

مُڑ کے پیچھے کی طرف کس طرح دیکھوں کہ مجھے

اپنے قدموں کے نشانات سے ڈر لگتا ہے

جم نہ جائے مِری پلکوں پہ تِری یاد کی گرد

شیشۂ خواب کی سوغات سے ڈر لگتا ہے


سفیان صفی

No comments:

Post a Comment