Tuesday 24 September 2024

لازم ہے لائیں ڈھونڈ کر خود کو کہیں سے ہم

 لازم ہے لائیں ڈھونڈ کر خُود کو کہیں سے ہم

کیا بے نیاز ہو گئے دُنیا و دیں سے ہم

محسوس ہو رہا ہے ہمیں تم سے مل کے آج

جیسے پہنچ گئے ہوں فلک پہ زمیں سے ہم

دُنیائے پُر فریب کے انداز دیکھ کر

دل یوں بُجھا کہ ہو گئے خلوت نشیں سے ہم

اس جانِ آرزو سے ملاقات یوں ہوئی

مُدت کے بعد جیسے ملے ہوں ہمیں سے ہم

اس حُسنِ اعتقاد کی معراج دیکھنا

اک بُت کو کہہ رہے ہیں خُدا کس یقیں سے ہم

پھر آ گئے ہیں کُوچۂ جاناں میں لوٹ کر

نکلے تھے اک طویل سفر پر یہیں سے ہم

سیکھے کہاں سے تُو نے یہ انداز دِلبری

جی چاہتا ہے پُوچھ لیں اس نازنیں سے ہم

ہم کو قدم قدم پہ جو دیتے رہے فریب

رکھے ہوئے ہیں آس ابھی تک اُنہیں سے ہم

فکر و نظر کو عشق نے بخشی ہیں وُسعتیں

تکتے ہیں آسمان کی جانب زمیں سے ہم

اہلِ نظر کے سامنے رکھیں گے یہ غزل

حاصل کریں گے داد کسی نکتہ چیں سے ہم

جس ارضِ پاک نے دیا ٭محروم کو جنم

آئے ہیں اے بہار! اسی سرزمیں سے ہم


امیر چند بہار

٭تلوک چند محروم، جگن ناتھ آزاد اور امیر چند بہار ان سبھی صاحبان کا تعلق میانوالی سے رہا ہے

No comments:

Post a Comment