Sunday, 29 September 2024

میری نادانی مرے دشمن کی دانائی ہوئی

 وہ بڑھا آگے جب اس جانب سے پسپائی ہوئی

میری نادانی مرے دشمن کی دانائی ہوئی

عمر بھر کی شوخ پروازوں سے تنگ آئی ہوئی

تیتری اک پھول پر آ بیٹھی السائی ہوئی

ہنسنے والوں کی ہنسی پر مسکرا دیتے ہیں ہم

اے زہے نامے کہ میری رہ میں رسوائی ہوئی

دھندلے دھندلے سے افق پر وہ جو پرچھائیں سی ہے

جانے کس کی آتما پھرتی ہے گھبرائی ہوئی

کیوں بتاؤں کس سے رہتی ہیں ملاقاتیں تری

جب سے دنیا کے کرم میں قید تنہائی ہوئی

وقت اس کاغذ کا بندی اور مجھ کو خندہ زن

ہائے یہ تصویر تیرے ساتھ کھنچوائی ہوئی

بھاگ کر دنیا سے گھر کی سمت پھر جاتے ہو کیوں

گھر سے بھاگے تھے تو دنیا میں پذیرائی ہوئی

بے زباں تھے ہم جہاں ہر شخص تھا گرمِ سخن

آخر آخر اپنی خاموشی کی شنوائی ہوئی

اس چتا میں جنم بھومی کو ستی ہونا پڑا

تھے جو اس کے اپنے فرزندوں کی دہکائی ہوئی

رکھ تو دوں اوروں پہ الزامِ شکستِ اعتماد

جب کہ تو اپنے ہی منہ سے راز افشائی ہوئی

اس کھنڈر کے دیوتا کا کچھ بھلا سا نام تھا

تھا صنم خانہ تو صدیوں ناصیہ سائی ہوئی

نزع میں سنیے تو اکبر کے لبوں کا ارتعاش

سب کا شیون صاحبِ عالم کی شہنائی ہوئی

اس کے ہر انداز میں اردو غزل کا رنگ ہے

سُر مدھر ، لہجہ نکیلا ، چال اٹھلائی ہوئی

سات دریاؤں میں میرے نام کا قطرہ نہ تھا

پی رہا ہوں اپنی ہی آنکھوں کی چھلکائی ہوئی


رشید کوثر فاروقی

No comments:

Post a Comment