قیس صحرا نشیں سے لے آؤ
عشق مجھ سا کہیں سے لے آؤ
چاند کہتا تھا آسمانوں پر
نُور میرا زمیں سے لے آؤ
ان کے نازک لبوں کو چھُو جائے
ایسا جھونکا کہیں سے لے آؤ
رقص کرتا رہے جو ہونٹوں پر
ایسا مصرعہ کہیں سے لے آؤ
ہم منائیں تو مان جائیں گے
ان کو جا کر کہیں سے لے آؤ
خاک جن کی حیات کا ساماں
ایک چُٹکی انہیں سے لے آؤ
ہے تمنّا اویس کے سر کی
ایک پتھر وہیں سے لے آؤ
اویس الحسن
No comments:
Post a Comment