Monday 23 September 2024

قیس صحرا نشیں سے لے آؤ

 قیس صحرا نشیں سے لے آؤ

عشق مجھ سا کہیں سے لے آؤ

چاند کہتا تھا آسمانوں پر

نُور میرا زمیں سے لے آؤ

ان کے نازک لبوں کو چھُو جائے

ایسا جھونکا کہیں سے لے آؤ

رقص کرتا رہے جو ہونٹوں پر

ایسا مصرعہ کہیں سے لے آؤ

ہم منائیں تو مان جائیں گے

ان کو جا کر کہیں سے لے آؤ

خاک جن کی حیات کا ساماں

ایک چُٹکی انہیں سے لے آؤ

ہے تمنّا اویس کے سر کی

ایک پتھر وہیں سے لے آؤ


اویس الحسن

No comments:

Post a Comment