Wednesday 18 September 2024

جی رہے ہیں کیا ہی لاچاری میں ہم

 زعفرانی کلام


جی رہے ہیں کیا ہی لاچاری میں ہم

کار میں یار اور بے کاری میں ہم

اب ہمیں ٹھنڈی سڑک پر کیا خطر

رکھ چلے ہیں دل کو الماری میں ہم

موت کا ڈر، دل میں دھڑکن، لب پہ آہ

ہیں تِری محفل میں یا لاری میں ہم

حُور کے رُخ میں جو دیکھا شیخ نے

دیکھتے ہیں وہ تِری "ساری" میں ہم

کیا کہیں پولیس سے کیا گُم ہوا؟

کیا رپٹ لکھوائیں ناداری میں ہم

کشتِ دل کیا آپ نے کر دی ہری

ہو گئے ہیں چشم پٹواری میں ہم

مات دے بیٹھے ہیں لق لق آج کل

ساری دُنیا کو گُنہ گاری میں ہم


حاجی لق لق

No comments:

Post a Comment