زعفرانی کلام
جی رہے ہیں کیا ہی لاچاری میں ہم
کار میں یار اور بے کاری میں ہم
اب ہمیں ٹھنڈی سڑک پر کیا خطر
رکھ چلے ہیں دل کو الماری میں ہم
موت کا ڈر، دل میں دھڑکن، لب پہ آہ
ہیں تِری محفل میں یا لاری میں ہم
حُور کے رُخ میں جو دیکھا شیخ نے
دیکھتے ہیں وہ تِری "ساری" میں ہم
کیا کہیں پولیس سے کیا گُم ہوا؟
کیا رپٹ لکھوائیں ناداری میں ہم
کشتِ دل کیا آپ نے کر دی ہری
ہو گئے ہیں چشم پٹواری میں ہم
مات دے بیٹھے ہیں لق لق آج کل
ساری دُنیا کو گُنہ گاری میں ہم
حاجی لق لق
No comments:
Post a Comment