میرے مولا
بہتر برس ہو گئے
ایک تاریک
رستے پہ چلتے ہوئے
ٹھوکریں کھاتے، گرتے، سنبھلتے ہوئے
اک سحر کے لیے
جس کی پاداش میں
کتنی بہنوں سے بھائی جدا ہو گئے
شہداء ہو گئے
ماؤں نے کتنی لاشوں کو رخصت کیا
بین کرتے ہوئے
ہاتھ ملتے ہوئے
میرے مولا
بہتر برس ہو گئے
میرا خطہ مِرا قید خانہ بنا
یہ بہانا بنا
کہ میں مقبوضہ ہوں
یا میں آزاد ہوں؟
عقل کے ماتمی جانتے ہی نہیں
ایک کشمیر تھا، ایک کشمیر ہوں
پر میں مجبور ہوں
میری آواز منصف کی دیوار کے پار جاتی نہیں
در ہلاتی نہیں
میرے مولا
بہتر برس ہو گئے
ظلم سہتے ہوئے
دل جلائے ہوئے
چادرِ بنتِ حوّا کی تضحیک ہو
دیکھتے گودِ مادر کی تذلیل کو
وہ جو قرباں ہوئے
سر اٹھائے ہوئے طفلِ نو کے جسد
خاک لتھڑے ہوئے
خوں نہائے ہوئے
مولا مقبول کر
مولا مقبول کر
تُو گواہ ہے بہتر برس کا مِرے
اتنی قربانیاں مولا کافی نہیں؟
اب معافی نہیں؟
میرے مولا
بہتر برس ہو گئے
اسرار احمد
No comments:
Post a Comment