Tuesday, 24 September 2024

بھوکی ہے زمین بھوک اگلتی ہی رہے گی

 بھُوکی ہے زمین بھُوک اگلتی ہی رہے گی

یہ بھُوک میرے پیٹ میں پلتی ہی رہے گی

جیون بھی میرا دشت ہے مسکن بھی میرا دشت

ہونٹوں پہ میرے پیاس مچلتی ہی رہے گی

ہستی کے اُجڑنے کا بھلا دُکھ مجھے کیوں ہو

یہ ٹھوکریں کھا کھا کے سنبھلتی ہی رہے گی

چہرے نئے، انداز نئے، طور نئے ہیں

دُنیا ہے یہ سو رنگ بدلتی ہی رہے گی

دل میں نہیں اب پاس رہا چین و سکوں کا

اک آگ سی دل میں اُبلتی ہی رہے گی

مذکور کریں کیا دلِ مجبور کا ناقد

اک ہُوک ہے سینے سے نکلتی ہی رہے گی


شبیر ناقد

No comments:

Post a Comment