عدل رقصاں ہے، تو سرکار نشے میں دھت ہے
لشکرِ حفظ کا سالار نشے میں دھت ہے
لڑکھڑاتا ہوا میں ڈھونڈ رہا ہوں جس کو
میرا حامی و مدد گار نشے میں دھت ہے
اتنی جذیات سے تخلیق کہاں ممکن تھی
ایسا لگتا ہے کہ فنکار نشے میں دھت ہے
آج پلکیں بھی وہ ابرو بھی سجا کر نکلا
دیکھ! تلوار کا ہر وار نشے میں دھت ہے
لازماً گزرا ہے، مدہوش نگاہوں والا
آج بازار کا بازار نشے میں دھت ہے
کچھ دعا کی ہے ضرورت نہ دوا کی حاجت
تیرا عاشق نہیں بیمار نشے میں دھت ہے
جتنی غالب کو جگاتی تھی مے اتنی پی کر
میر مدہوش ہے اسرار نشے میں دھت ہے
اسرار احمد
No comments:
Post a Comment