باغِ ہستی کی پائمالی ہے
خون سے تر ہر ایک ڈالی ہے
بُلبلوں کی زباں پہ ہے پہرہ
آہ، زاغوں کی کوتوالی ہے
آگ برسا رہا ہے پھولوں پر
ایسا ظالم، چمن کا مالی ہے
خار زاروں کو مل رہی ہے غذا
لالہ زاروں پہ خشک سالی ہے
تحفۂ گل کہاں سے لاؤں میں
ہر شجر، نقشِ خستہ حالی ہے
ایسی حالت میں سالِ نو آیا
جب بہاروں کا ہاتھ خالی ہے
ہو مسرت کی اب سحر یارب
چار سُو غم کی رات کالی ہے
تیرے در سے دلِ فریدی بھی
اے خدا! امن کا سوالی ہے
فریدی مصباحی
No comments:
Post a Comment