ہمیشہ چلتا ہوں دامن بچا کے رستے میں
گلاب ملتے ہیں کانٹے سجا کے رستے میں
دیارِ عشق و وفا میں ہُنر ہے چلنے کا
نگاہ اپنی ہمیشہ جھُکا کے رستے میں
تِرے ہی لُطف و کرم کے سہارے یا مُرشد
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
بنایا مست قلندر ہمیں تو ساقی نے
نظر سے جام پلا کے رستے میں
نگاہِ بد کا اثر اس کو ہو نہیں سکتا
چلے جو پیار کا سُرمہ لگا کے رستے میں
دِوانہ قلب و جگر کے سکون کی خاطر
اُداس رہتا ہے سب کچھ لُٹا کے رستے میں
سکونِ شب میں نہ دن میں قرار ہے عاقب
یہی تو ہوتا ہے اکثر وفا کے رستے میں
عاقب چشتی
No comments:
Post a Comment