وہ میرے حال دل سے اس قدر بھی بے خبر ہو گا
خبر کیا تھی کہ یوں بے حس وہ میرا ہم سفر ہو گا
کہ ہم تو عمر بھر لڑنے کی خواہش لے کے آئے تھے
خبر کیا تھی کہ وقت فیصلہ یوں مختصر ہو گا
چراغ غم جلایا تھا اجالوں کی امیدوں میں
خبر کیا تھی مِری کوشش کا الٹا ہی اثر ہو گا
دبے شعلوں کو بھڑکایا کہ ان کا آشیاں سلگے
خبر کیا تھی جلے گا جو مِرا اپنا ہی گھر ہو گا
وہ جب رخصت ہوا اس کو پکارا بھی نہیں ہم نے
خبر کیا تھی کی پچھتاوا ہمیں پھر عمر بھر ہو گا
جہاں میری ہر اک حسرت حقیقت میں بدل جائے
خبر کیا تھی مِرے خوابوں کا وہ ساحل کدھر ہو گا
جسے ہم ڈھونڈتے پھرتے تھے خوابوں میں خیالوں میں
خبر کیا تھی وہ صدیوں سے ہمارا منتظر ہو گا
سندیپ کول نادم
No comments:
Post a Comment