Wednesday, 25 September 2024

یروشلم ہے کہ راہ غم ہے

 یروشلم ہے کہ راہِ غم ہے


میرے زخموں نے کیے کتنے فلسطین آباد

یروشلم ہے کہ راہِ غم ہے

مقامِ گِریہ، مقامِ مصلوبیت سے بابِ مغاربہ تک

سبھی کے رُوح و بدن شکستہ

سبھی کی پیشانیاں ہیں زخمی

بجائے مرہم، مگر زمانوں کے تن بدن پر

غزہ کی پٹی بندھی ہوئی ہے

کوئی محلّہ نہیں ہے ایسا

کہ جس میں دیوارِ اجنبیت کا کوہِ ہیکل نہ آ گیا ہو

اے بابِ اسباط کے مکینو

کبھی جو بابِ دمشق سے ہو گزر تمہارا

تو بابِ صیہون کی قسم ہے

ہماری جانب بھی دیکھ لینا

زمیں سے تا آسماں معلّق جو سلسلہ ہے

ہمارے خوابوں سے آ ملا ہے

کبھی جو قبلہ ہُوا تمہارا

وہ اب ہمارا بھی قرطبہ ہے

اے شہرِ داؤد کے مقدس چراغ دانو

رہیں تمہاری لویں سلامت

قبول ہو ہر دُعائے اقصیٰ

سنائی دے ہر اذان اُونچی

رہے چٹانوں کی شان اُونچی

انہی اذانوں، انہی چٹانوں میں کچھ صدائیں بھی گُونجتی ہیں

جو آنے والے ہر اک زمانے سے پُوچھتی ہیں

یروشلم ہے کہ راہِ غم ہے

یہ غم ہی قرنوں سے ہمقدم ہے

تو کیا کبھی بھی نہ اب سکینہ ظہور ہو گی؟

تو کیا کبھی بھی یہ بابِ رحمت نہیں کُھلے گا؟


فاضل جمیلی

No comments:

Post a Comment