Saturday 21 September 2024

وحشت زدہ ہوں بوئے گل تر سے زیادہ

قصیدہ


 وحشت زدہ ہوں بوئے گلِ تر سے زیادہ

مشکل ہے ٹھہرنا کہیں دم بھر سے زیادہ

تقدیر اُڑائے لیے پھرتی ہے شب و روز

ہر تارِ نفس ہے مجھے شہپر سے زیادہ

ہوں اشک چکیدہ نہیں جز خاک مجھے چین

ہے فرشِ زمیں بالش و بستر سے زیادہ

ہر چند کہ ہے تا بہ گلو چشمۂ حیواں

لیکن ہوں جگر تشنہ سکندر سے زیادہ

ایسے کا ثنا خواں ہوں کہ اوصاف ہیں جس کے

وسعت گہِ تخیلِ سخنور سے زیادہ

جمشید حشم، ظلِ خدا، کلب علی خاں

دارائے جہاں بخش سکندر سے زیادہ

اے شوق شب و روز پئے حضرتِ ممدوح

کر عرض یہی خالقِ اکبر سے زیادہ

یا رب مِرے سلطان کو صحت رہے حاصل

ہو عمر عطا خضر پیمبر سے زیادہ


شوق نیموی

No comments:

Post a Comment