فلسطین
عجیب جنگ ہے یہ
اور عجیب تر ہے کہ جو
اس ایک جنگ میں
ظالم کی صف میں شامل ہیں
یہ جنگ بچوں کے
ماؤں کے
درسگاہوں کے
نہتے لوگوں کے
بوڑھے اور ضعیفوں کے
یہ جنگ زخمی مریضوں کے
اسپتالوں کے
خلاف جنگ ہے
کون جانے کب سے جاری ہے
اور ان کا جرم ہے کی آزادی وطن کا جنون
یہ جنگ تیل پہ قبضے کی جنگ ہے لیکن
یہ جنگ مجلس اقوام کے خلاف بھی ہے
وہ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ ختم ہو نہ کبھی
اجنمے کوکھ کے بچے چکائیں ہر قیمت
بچھائیں لاشیں تو یوں ہو زمین چھوٹی پڑے
بہے جو خون تو بھر جائے اس سے ہر ساگر
وہ چاہتے ہیں کہ غلامی کا دور لوٹ آئے
یہ خواب ہے کہ سبھی کچھ تباہ ہو جائے
جو قسمیں کھاتے تھے تہذیب کی حفاظت کی
نقابیں پھینک کے اترے ہیں آج میدان میں
لگائے جسم پہ مظلومیت کے تمغے کو
ہیں ساتھ ظلم کے، ظالم کے صف میں شامل ہیں
مگر یہ بھول گئے ہیں کہ زخم گہرے سہی
کروڑوں لوگ اٹھیں گے کہیں گے بس، اب بس
بھروسہ دیں گے، فلسطین کے عوام کو وہ
یہ جنگ صرف تمہاری نہیں، ہماری بھی ہے
کروڑوں لوگ اٹھیں گے ہر ایک ملک میں جو
حکومتوں کے سروں کو جھکا کے دم لیں گے
گوہر رضا
No comments:
Post a Comment