Wednesday, 18 September 2024

وہ ایک پل کو مجھے اتنا سچ لگا تھا کہ بس

 وہ ایک پل کو مجھے اتنا سچ لگا تھا کہ بس

وہ حادثہ تھا مگر ایسا حادثہ تھا کہ بس

وہ پہلے پہلے ملا تھا تو یوں سجا تھا کہ بس

پھر اس کے بعد تو ایسا اجڑ گیا تھا کہ بس

میں اپنے گاؤں کے دیوار و در پہ کیا لکھتا

وہاں تو ایسا اندھیرا چنا ہوا تھا کہ بس

وہ ایک عام سا لہجہ تھا بھیگے موسم کا

نگاہ و دل میں مگر یوں اتر گیا تھا کہ بس

بس ایک موڑ تلک ہمسفر دلاسے تھے

پھر اس کے بعد تو وہ سخت مرحلہ تھا کہ بس

غریب ٹوٹ نہ جاتا تو اور کیا کرتا?

تمام عمر زمانے سے یوں لڑا تھا کہ بس

نہ آ سکا وہ مِرے گھر تو کیا ہوا ناظم

کہ راستہ بھی تو ایسا گھماؤ کا تھا کہ بس


ناظم سلطانپوری

No comments:

Post a Comment