وہ ایک پل کو مجھے اتنا سچ لگا تھا کہ بس
وہ حادثہ تھا مگر ایسا حادثہ تھا کہ بس
وہ پہلے پہلے ملا تھا تو یوں سجا تھا کہ بس
پھر اس کے بعد تو ایسا اجڑ گیا تھا کہ بس
میں اپنے گاؤں کے دیوار و در پہ کیا لکھتا
وہاں تو ایسا اندھیرا چنا ہوا تھا کہ بس
وہ ایک عام سا لہجہ تھا بھیگے موسم کا
نگاہ و دل میں مگر یوں اتر گیا تھا کہ بس
بس ایک موڑ تلک ہمسفر دلاسے تھے
پھر اس کے بعد تو وہ سخت مرحلہ تھا کہ بس
غریب ٹوٹ نہ جاتا تو اور کیا کرتا?
تمام عمر زمانے سے یوں لڑا تھا کہ بس
نہ آ سکا وہ مِرے گھر تو کیا ہوا ناظم
کہ راستہ بھی تو ایسا گھماؤ کا تھا کہ بس
ناظم سلطانپوری
No comments:
Post a Comment