Wednesday 18 September 2024

یہ کس کو جاگ جاگ کے تاروں کی چھاؤں میں

 یہ کس کو جاگ جاگ کے تاروں کی چھاؤں میں

ہم مانگتے ہیں پچھلے پہر کی دعاؤں میں

جنت کو دور دور تو ڈھونڈا گیا, مگر

قدموں تلے نہ ماں کے نہ تیغوں کی چھاؤں میں

خشکی کے رہبروں سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

کچھ تو خدا کا نام چلا ناخداؤں میں

یا رب قفس ہے یا کہ چمن کیا ہے یہ جہاں

الجھے پڑے ہیں پھول کٹیلی لتاؤں میں

دیوانہ مست حال ہے اس کو خبر کہاں

جھانجھن پڑی ہوئی ہے کہ زنجیر پاؤں میں

دونوں کو اپنے دیس کی مٹی پہ ناز ہے

سانپوں کی بانبیاں بھی ہیں پھولوں کے گاؤں میں

سب چل پڑیں جو خلد کو جاتی ہو کوئی راہ

گل مہر کی دو رویہ قطاروں کی چھاؤں میں

ہم شیخ سے یہ کہہ کے سوئے دیر چل دئیے

رکھیے گا یاد ہم کو بھی اپنی دعاؤں میں


رشید کوثر فاروقی

No comments:

Post a Comment