یہ کس کو جاگ جاگ کے تاروں کی چھاؤں میں
ہم مانگتے ہیں پچھلے پہر کی دعاؤں میں
جنت کو دور دور تو ڈھونڈا گیا, مگر
قدموں تلے نہ ماں کے نہ تیغوں کی چھاؤں میں
خشکی کے رہبروں سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
کچھ تو خدا کا نام چلا ناخداؤں میں
یا رب قفس ہے یا کہ چمن کیا ہے یہ جہاں
الجھے پڑے ہیں پھول کٹیلی لتاؤں میں
دیوانہ مست حال ہے اس کو خبر کہاں
جھانجھن پڑی ہوئی ہے کہ زنجیر پاؤں میں
دونوں کو اپنے دیس کی مٹی پہ ناز ہے
سانپوں کی بانبیاں بھی ہیں پھولوں کے گاؤں میں
سب چل پڑیں جو خلد کو جاتی ہو کوئی راہ
گل مہر کی دو رویہ قطاروں کی چھاؤں میں
ہم شیخ سے یہ کہہ کے سوئے دیر چل دئیے
رکھیے گا یاد ہم کو بھی اپنی دعاؤں میں
رشید کوثر فاروقی
No comments:
Post a Comment