Friday, 20 September 2024

طیبہ کے مہمان ہو جائیں گے کیا

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


طیبہ کے مہمان ہو جائیں گے کیا

یہ گدا ذی شان ہو جائیں گے کیا

پاس بیٹھے جو نہیں ہیں دو گھڑی

عمر بھر مہمان ہو جائیں گے کیا

چوم لیں جو دشت طیبہ کی زمیں

بے عمل، عدنان ہو جائیں گے کیا

آرزو کی فصلِ گل مرجھائی ہے

گلشن اب ویران ہو جائیں گے کیا

تیرگی یہ چھٹ ہی جائے گی کبھی

یونہی گھر ویران ہو جائیں گے کیا

رکھ یقیں مت بدگماں ہو دوستا

شہر بھی سنسان ہو جائیں گے کیا

وار دیں گر سب تمہارے نام پر

پھر تری مسکان ہو جائیں گے کیا

خاک جن کی راہ میں ہم ہو گئے

ہم سے وہ انجان ہو جائیں کیا

مخملی ہاتھوں کے آ کر لمس میں

سنگ بھی مرجان ہو جائیں گے کیا

ہم کو ہے بس عشق ان کی ذات سے

سر بنے تھے تان ہو جائیں گے کیا

جو مرے بدخواہ تھے، ہیں محتسب

پھر وہی نگران ہو جائیں گے کیا

جو ترستے ہیں تری اک دید کو

صاحبِ وجدان ہو جائیں گے کیا

آپ کی نظرِ عنایت کے لیے

غم مِرے تاوان ہو جائیں گے کیا

زلف پیچاں میں جو الجھے ہیں تری

روہی تھل دامان ہو جائیں گے کیا

دید تیری حج اکبر ہے مرا

یوں سبھی ارکان ہو جائیں گے کیا

منتظر ہوں، ایک دن وہ آئیں گے

پورے سب ارمان ہو جائیں گے کیا

میں گزر آؤں اگر سکرات سے

مرحلے آسان ہو جائیں گے کیا

شعر جن کے سب عطائے ناز ہیں

میر کا دیوان ہو جائیں گے کیا

بے خبر جو عشق میں تیرے ہوئے

صاحب ایقان ہو جائیں گے کیا

گر صبا لے جائے سرمد اس گلی

خار بھی ریحان ہو جائیں گے کیا


شاہنواز سرمد

No comments:

Post a Comment