عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
طیبہ کے مہمان ہو جائیں گے کیا
یہ گدا ذی شان ہو جائیں گے کیا
پاس بیٹھے جو نہیں ہیں دو گھڑی
عمر بھر مہمان ہو جائیں گے کیا
چوم لیں جو دشت طیبہ کی زمیں
بے عمل، عدنان ہو جائیں گے کیا
آرزو کی فصلِ گل مرجھائی ہے
گلشن اب ویران ہو جائیں گے کیا
تیرگی یہ چھٹ ہی جائے گی کبھی
یونہی گھر ویران ہو جائیں گے کیا
رکھ یقیں مت بدگماں ہو دوستا
شہر بھی سنسان ہو جائیں گے کیا
وار دیں گر سب تمہارے نام پر
پھر تری مسکان ہو جائیں گے کیا
خاک جن کی راہ میں ہم ہو گئے
ہم سے وہ انجان ہو جائیں کیا
مخملی ہاتھوں کے آ کر لمس میں
سنگ بھی مرجان ہو جائیں گے کیا
ہم کو ہے بس عشق ان کی ذات سے
سر بنے تھے تان ہو جائیں گے کیا
جو مرے بدخواہ تھے، ہیں محتسب
پھر وہی نگران ہو جائیں گے کیا
جو ترستے ہیں تری اک دید کو
صاحبِ وجدان ہو جائیں گے کیا
آپ کی نظرِ عنایت کے لیے
غم مِرے تاوان ہو جائیں گے کیا
زلف پیچاں میں جو الجھے ہیں تری
روہی تھل دامان ہو جائیں گے کیا
دید تیری حج اکبر ہے مرا
یوں سبھی ارکان ہو جائیں گے کیا
منتظر ہوں، ایک دن وہ آئیں گے
پورے سب ارمان ہو جائیں گے کیا
میں گزر آؤں اگر سکرات سے
مرحلے آسان ہو جائیں گے کیا
شعر جن کے سب عطائے ناز ہیں
میر کا دیوان ہو جائیں گے کیا
بے خبر جو عشق میں تیرے ہوئے
صاحب ایقان ہو جائیں گے کیا
گر صبا لے جائے سرمد اس گلی
خار بھی ریحان ہو جائیں گے کیا
شاہنواز سرمد
No comments:
Post a Comment