Thursday 19 September 2024

اس دل خوش گماں سے اٹھتا ہے

 اس دلِ خوش گُماں سے اُٹھتا ہے 

درد ہر پل یہاں سے اٹھتا ہے 

آگ گھر کے دِیے سے لگتی ہے

یہ دُھواں ہر زباں سے اٹھتا ہے 

لوگ پہروں جگہ وہ تکتے ہیں

میرا ساجن جہاں سے اٹھتا ہے

ہونٹ چُپ ہیں، مگر میرے اندر

شور جانے کہاں سے اٹھتا ہے

شور سُن کر لگے ہے ڈر مجھ کو

وہ جو آہ و فغاں سے اٹھتا ہے

اب گِلہ کیسے ہو کسی سے جب 

فتنہ اپنے مکاں سے اٹھتا ہے

تاب ریحانہ میں رہی کب ہے؟

بوجھ کب ناتواں سے اٹھتا ہے 


ریحانہ اعجاز

No comments:

Post a Comment