دیکھنا دل کو کچھ ہُوا تو نہیں
یہ ہے آغاز انتہا تو نہیں
کیوں اسے بے وفا کے نام کروں
زندگی ہے کوئی سزا تو نہیں
زیست کیوں قید بن گئی اپنی
جُرم ایسا کوئی کیا تو نہیں
تجھ سے مانگوں میں کس لیے جیون
تُو مسیحا سہی خُدا تو نہیں
وہ جو ہمزاد ہے مِرا شاہد
دُور تو ہے مگر جُدا تو نہیں
رفیق شاہد
No comments:
Post a Comment