Friday 20 September 2024

یوں اہتمام رد سحر کر دیا گیا

 یوں اہتمام ردِ سحر کر دیا گیا

ہر روشنی کو شہر بدر کر دیا گیا

اپنے گھروں کے سُکھ سے بھی روکش دکھائی دیں

لوگوں کو مُبتلائے سفر کر دیا گیا

جینا ہر ایک کے لیے مُمکن نہیں رہا

جینے کو ایک کار ہُنر کر دیا گیا

چہروں سے رنگ ہاتھ سے آئینے چھین کر

بے چہرگی کو رختِ نظر کر دیا گیا

اب جسم و جاں پہ حق تصرف طلب کرے

ظالم کو اس قدر تو نڈر کر دیا گیا

درپئے تھے ہر شجر کے تعفّن شعار لوگ

محروم خُوشبوؤں سے نگر کر دیا گیا

وہ قحط غم پڑا ہے کہ اک ٹیس کے لیے

اہلِ کرم کا دستِ نگر کر دیا گیا


ستار سید

No comments:

Post a Comment