قہر کی آگ جل رہی ہو گی
عمر اس میں پگھل رہی ہو گی
موت کا قتل ہو رہا ہو گا
زندگی ہاتھ مَل رہی ہو گی
خال و خد خاک ہو رہے ہوں گے
نئی صُورت نکل رہی ہو گی
یہ مِری خاک گم شدہ سی خاک
کسی پیکر میں ڈھل رہی ہو گی
قرن کی ریت کتنی تیزی سے
مُٹھیوں سے پھسل رہی ہو گی
رنگ و نکہت و موج و مستی میں
پھر سے نیّت بدل رہی ہو گی
کوئی تارا کہیں نہ چمکے گا
شام بے سُود ڈھل رہی ہو گی
طارق اسد
No comments:
Post a Comment