Friday, 20 September 2024

قہر کی آگ جل رہی ہو گی

 قہر کی آگ جل رہی ہو گی

عمر اس میں پگھل رہی ہو گی

موت کا قتل ہو رہا ہو گا

زندگی ہاتھ مَل رہی ہو گی

خال و خد خاک ہو رہے ہوں گے

نئی صُورت نکل رہی ہو گی

یہ مِری خاک گم شدہ سی خاک

کسی پیکر میں ڈھل رہی ہو گی

قرن کی ریت کتنی تیزی سے

مُٹھیوں سے پھسل رہی ہو گی

رنگ و نکہت و موج و مستی میں

پھر سے نیّت بدل رہی ہو گی

کوئی تارا کہیں نہ چمکے گا

شام بے سُود ڈھل رہی ہو گی


طارق اسد

No comments:

Post a Comment