Friday 20 September 2024

نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہمزباں ہے

 نہ ہمدم ہے نہ کوئی ہم زباں ہے

دل ناشاد پھر بھی نغمہ خواں ہے

مِری قسمت میں ہی دی ہے خدا نے

مصیبت جو بھی زیر آسماں ہے

چمن کے طائرو اب خیر مانگو

بہت برہم مزاجِ باغباں ہے

ہوا رُخصت شباب اے ہم صفیرو

طبیعت میں وہ شوخی اب کہاں ہے

مجھے بخشی ہے جس نے غم کی دولت

اسے کیوں کر کہوں نا مہرباں ہے

گھڑی بھر ہی کی لذت ہے ہوس میں

محبت ایک کیفِ جاوِداں ہے

دل ناداں کو بہلاتی رہی جو

مِرے خوابوں کی وہ دنیا کہاں ہے

مٹائے گا کوئی اردو کو کیوں کر

یہ اقبال اور غالب کی زباں ہے

بہار! اہلِ زمانہ کو خوشامد

ہماری طبع نازک پر گراں ہے


امیر چند بہار

No comments:

Post a Comment