روز یہ، بار بار ہوتا نہیں
ہم سے جی انتظار ہوتا نہیں
عشق وہ تیر ہے جو پھنس جائے
تیر، جو دل کے پار ہوتا نہیں
آدمی وہم پال لیتا ہے
آدمی بے قرار ہوتا نہیں
میں سمجھنا تو چاہتا ہوں اُسے
مجھ پہ وہ آشکار ہوتا نہیں
لوگ کیا کچھ نہیں ہیں کر جاتے
آپ سے اعتبار ہوتا نہیں
میں تو پڑھتا ہوں فرض بھی گِن کر
نعمتوں کا شُمار ہوتا نہیں
دل جہاں چاہے جا لگے سالِم
دل پہ کچھ اختیار ہوتا نہیں
سالم احسان
No comments:
Post a Comment