Thursday 19 September 2024

وہی تو رسم و رہ عاشقی نبھاتے ہیں

 وہی تو رسم و رہِ عاشقی نبھاتے ہیں

جو زخم کھا کے محبت میں مسکراتے ہیں

ہمارے دل میں ہے آلام کا جہاں آباد

اور اس پہ لوگ ہمیں اپنے دُکھ سناتے ہیں

مسافرانِ عدم کارواں پہ کیا گُزری؟

ہم ایک ایسی کہانی تمہیں سناتے ہیں

اُسے ہماری محبت پہ رشک آتا ہے

یہاں پہ جس سے بھی ہم رسم و رہ بڑھاتے ہیں

یہ دُنیا راہ میں کانٹے بکھیر دیتی ہے

تمہاری سمت اگر ہم قدم اُٹھاتے ہیں

کسی نے ہجر کی راتوں کا ذکر چھیڑ دیا

ستارے سے مِری پلکوں پہ جھلملاتے ہیں

ہمارے ملنے کو ہرگز سُبک سری نہ کہو

ادھر سے گُزرے تو سوچا کہ ملتے جاتے ہیں

تو خوش نصیب ہے منعم جو ان کو دیکھتا ہے

سو آئینے تِرے قدموں پہ سر جُھکاتے ہیں


آفتاب غنی منعم

No comments:

Post a Comment