Thursday, 19 September 2024

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے

اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے

تمہارے دَر کے ٹکڑوں سے پڑا پلتا ہے اک عالم

گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج خانے سے

شبِ اسریٰ کے دُولھا پر نچھاور ہونے والی تھی

نہیں تو کیا غرض تھی اتنی جانوں کے بنانے سے

کوئی فردوس ہو یا خلد ہو ہم کو غرض مطلب

لگایا اب تو بستر آپﷺ ہی کے آستانے سے

نہ کیوں اُن کی طرف اللہ سو سو پیار سے دیکھے

جو اپنی آنکھیں مَلتے ہیں تمہارے آستانے سے

تمہارے تو وہ احساں اور یہ نافرمانیاں اپنی

ہمیں تو شرم آتی ہے تم کو منہ دکھانے سے

بہارِ خلد صدقے ہو رہی ہے روئے عاشق پر

کھلی جاتی ہیں کلیاں دل کی تیرے مسکرانے سے

پلٹتا ہے جو زائر اُس سے کہتا ہے نصیب اُس کا

ارے غافل قضا بہتر ہے یاں سے پھر کے جانے سے

بُلا لو اپنے در پر اب تو ہم خانہ بدوشوں کو

پھریں کب تک ذلیل و خوار در در بے ٹھکانے سے

نہ پہنچے اُن کے قدموں تک نہ کچھ حُسنِ عمل ہی ہے

حسن کیا پوچھتے ہو ہم گئے گزرے زمانے سے


حسن رضا بریلوی

No comments:

Post a Comment