ہم وِرد نامِ یار کر کے
دریاؤں کو آئے پار کر کے
اپنے ہی منتظر ہیں اب تو
دیکھا تِرا انتظار کر کے
اچھی تھیں وہ ناشناسیاں ہی
کھویا ہے تجھے بھی پیار کرکے
منظر ہے حسین سچ کا، دیکھو
خود کو کبھی وقفِ دار کر کے
ایزد یہ وطن ہے جان اپنی
پایا جسے جاں نثار کر کے
ایزد عزیز
No comments:
Post a Comment