Wednesday, 11 November 2020

کر بیٹھے گا کچھ نقصان تو سمجھے گا

 کر بیٹھے گا کچھ نقصان تو سمجھے گا

پائے گا جب گھر سنسان تو سمجھے گا

آنسو دل کو گروی رکھنے پڑتے ہیں

مہنگی ہو گی جب مسکان تو سمجھے گا

میں نے دھڑکن باندھی تھی اک گٹھڑی میں

کھولے گا وہ جب سامان تو سمجھے گا

امروہی میں لگنے والا سُر ہوں میں

پلٹے گا وہ دل کی تان تو سمجھے گا

اس نے اپنی زد میں کیا کچھ توڑ دیا

تھم جائے گا جب طوفان تو سمجھے گا

آنکھوں کا بھی خرچہ پانی ہوتا ہے

آئیں گے اس گھر مہمان تو سمجھے گا

ہم نے اس کی خاطر کیا کیا بیچ دیا

مشکل ہو گی جب آسان تو سمجھے گا


عاطف جاوید عاطف

No comments:

Post a Comment