ہمارا فیصلہ یہ ہے
ہمارا واقعہ یہ ہے
کہ ہم نے اپنی آنکھوں میں
بسا رکھی ہے اک دنیا
جو جنت تو نہیں لیکن
بہشتوں کے تصور سے زیادہ خوبصورت ہے
جہاں لعل و زمرد سے مزین گھر نہیں کوئی
مگر کچے مکانوں میں کچھ ایسے لوگ رہتے ہیں
جو خود یاقوت سے بڑھ کر دمكتے ہیں
جہاں وسعت نہیں کچھ گھر کے آنگن میں
مگر کنجِ تصور کا علاقہ
لامکاں کی وسعتوں سے کچھ زیادہ ہے
جہاں پر حور و غلماں کی بجائے حسن کی تقدیس رہتی ہے
نہ کوئی شہد کی ندی ، نہ دریا آبِ لذت کا
مگر شہرِ بدن کے علاقے میں
خمار آور لہو کی نہر بہتی ہے
٭
ہمارا المیہ یہ ہے
کہ دنیا کو آنکھوں میں بسا کر بھی
ہم اس دنیا کے باسی ہیں
جو دوزخ تو نہیں لیکن
جہنم سے زیادہ روح فرسا ہے
جہاں تپتی فضاؤں میں
ہوا کی چھاؤں جلتی ہے
ہم اس آتش کدے میں اپنے سائے کے تلے بیٹھیں
تو جل کر راکھ ہو جائیں
چنانچہ لوگ شعلے پہن کر پھرتے ہیں جن سے
جسم تو محفوظ رہتے ہیں مگر روحیں تڑختی ہیں
یہ ایسی آگ ہے جس میں ہر اک کی ذات کا دوزخ ممیّز ہو کے جلتا ہے
جب اس کی بھوک بڑھتی ہے
تو ہم اپنے بدن کو نوچ کھاتے ہیں
لہو رِستے ہوئے زخموں کا پیتے ہیں
ہم اپنے آپ کو جب قتل کرتے ہیں تو جیتے ہیں
ہمارا فیصلہ یہ ہے
کہ ہم ایسے جہنم میں جلیں گے پر کسی صورت
نگاہوں میں بسی جنت پہ اس کی آنچ تک نہیں آنے دیں گے
سید مبارک شاہ
No comments:
Post a Comment