خونِ تمنّا رنگ لایا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے
تنہائی میں وہ رویا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
سب کے چہرے پر چہرہ تھا میں کس کو اپنا کہتا
کوئی مجھے بھی ڈھونڈ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
جس نے میرا گھر لُٹنے میں چوروں کی اگوائی کی
وہ میرا ہی ہمسایہ ہو،۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے
محفل ہے انگشت بدنداں اہلِ نظر پر رقت طاری
شعر کرشمہ کر ہی گیا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے
بھیڑ میں اس کو میں نے دیکھا دیکھ لیا تھا اس نے بھی
یا پھر نظروں کا دھوکا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے
دولت شہرت آنی جانی، پھر اس پر اترانا کیا
پانی پر یہ نام لکھا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے
اپنی کہانی جان کے یارو! ناحق آنکھ بھگوتے ہو
اس کا غم بھی تم جیسا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے
وقت کی دھوپ کڑی ہے غازی! داناؤں کی بستی میں
برف سا چہرہ سُلگ رہا ہو، ایسا بھی ہو سکتا ہے
یونس غازی
No comments:
Post a Comment