چند سانسوں کی زندگی سے لڑ
روشنی ہے تو آگہی سے لڑ
نفرتوں کی شِدت سے لازم ہے
اے محبت! نہ بے دلی سے لڑ
عشق لمبی اننگز مانگتا ہے
کھیلنا ہے تو دل لگی سے لڑ
اب نہ دیوار ہے نہ شہزادہ
سو نظامِ مہا بَلی سے لڑ
دیکھ کیسے نصیب لڑتا ہے
صاحبا سُن جنم جلی سے لڑ
ہجر میں کیوں ملول بیٹھا ہے
بزدلا! جا، بہادری سے لڑ
اب تو اعلانِ جنگ ہو بھی چکا
سرد مہری نہ خامشی سے لڑ
کیوں خدا سے بگاڑ بیٹھا ہے
آدمی ہے تو آدمی سے لڑ
کتنی مشکل سے تجھ کو پایا ہے
تجھ کو چھینا ہے ہر کسی سے لڑ
جو بھی آمد ہے ڈائری میں لکھ
اپنے اندر نہ شاعری سے لڑ
کام کیا ہے پرائے جھگڑے میں
مفت میں نہ تُو ہر کسی سے لڑ
جا، جیا کو نہال ہونے دے
جا، جیا کی سپردگی سے لڑ
جیا قریشی
No comments:
Post a Comment