Tuesday 30 August 2022

چند سانسوں کی زندگی سے لڑ

 چند سانسوں کی زندگی سے لڑ

روشنی ہے تو آگہی سے لڑ

نفرتوں کی شِدت سے لازم ہے

اے محبت! نہ بے دلی سے لڑ

عشق لمبی اننگز مانگتا ہے

کھیلنا ہے تو دل لگی سے لڑ

اب نہ دیوار ہے نہ شہزادہ

سو نظامِ مہا بَلی سے لڑ

دیکھ کیسے نصیب لڑتا ہے

صاحبا سُن جنم جلی سے لڑ

ہجر میں کیوں ملول بیٹھا ہے

بزدلا! جا، بہادری سے لڑ

اب تو اعلانِ جنگ ہو بھی چکا

سرد مہری نہ خامشی سے لڑ

کیوں خدا سے بگاڑ بیٹھا ہے

آدمی ہے تو آدمی سے لڑ

کتنی مشکل سے تجھ کو پایا ہے

تجھ کو چھینا ہے ہر کسی سے لڑ

جو بھی آمد ہے ڈائری میں لکھ

اپنے اندر نہ شاعری سے لڑ

کام کیا ہے پرائے جھگڑے میں

مفت میں نہ تُو ہر کسی سے لڑ

جا، جیا کو نہال ہونے دے

جا، جیا کی سپردگی سے لڑ


جیا قریشی

No comments:

Post a Comment