Monday 29 August 2022

اب خود بھگت کہا تھا بدل مت بدل گئی

 اب خود بھگت، کہا تھا بدل مت، بدل گئی

کتنی سہولتوں سے سہولت بدل گئی

دیکھو کہ ہر خوشی کی علامت بدل گئی

رنگت کو زنگ کھا گیا، صورت بدل گئی

تیرے بقول تیری ضرورت تھا صرف میں

پھر کیا ہوا؟ کہ تیری ضرورت بدل گئی

لوٹا ہوں اک سفر سے تو کچھ بھی نہیں بچا

نقشہ بگڑ چکا ہے،۔ شباہت بدل گئی

ہر مسئلے پہ کہتا تھا؛ کچھ مسئلہ نہیں

پھر ایک روز میری یہ عادت بدل گئی

لکھ تو دیا تھا؛ خوش ہوں میں تیرے بغیر، پر

پڑھنے لگا تو خط کی عبارت بدل گئی

اس کے لیے میں اہم ہوں، میرا خیال تھا

ارشد مِرا خیال،۔ حقیقت بدل گئی


زبیر ارشد

No comments:

Post a Comment