وہ داغ دل جو چھپا لیے ہیں تمہیں دکھا کے میں کیا کروں گا
وہ غم جو دل میں بسا لیے ہیں تمہیں سنا کے میں کیا کروں گا
اپنی میّت کو اپنے کاندھوں پہ لے کے تنہا رواں دواں ہوں
میں خود ہی کافی کفن دفن کو، جہاں بُلا کے میں کیا کروں گا
وہ ہمسفر جس نے راہ میں ہی الگ الگ کر لیے تھے رستے
وہ پھر سے مجھ کو اگر پکارے پلٹ کے آ کے میں کیا کروں گا
نہ گُل ہی کِھلتے ہیں اب چمن میں نہ کوئی نکہت نسیم میں ہے
ہے سُونا سُونا چمن ہی سارا چمن میں جا کے میں کیا کروں گا
ایک سُوکھے شجر کے سائے میں خشک تنکوں کی میری کُٹیا
آندھیاں بھی عروج پر ہیں،۔ دِیا جلا کے میں کیا کروں گا
تیرے ہی اپنے گواہ ہیں سارے تیرے ہی قاضی تیرے شہر میں
عمر! یہ ایساعدل ہے تیرا، عدل بھی پا کے میں کیا کروں گا
عمر فاروق
No comments:
Post a Comment