سیلاب ہی سیلاب ہیں ساحل نہیں رکھتے
ہم درد تو رکھتے ہیں مگر دل نہیں رکھتے
آوارہ مزاجوں کو فقیروں کی دعا ہے
منزل نہیں رکھتے غمِ منزل نہیں رکھتے
کشکول نہ شایاں سہی دہلیزِ حرم کے
کیا کاسۂ سر بھی تِرے سائل نہیں رکھتے
آنکھوں ہی سے وہ کھینچتے ہیں دل کی طنابیں
بازو مِری گردن میں حمائل نہیں رکھتے
لیلٰی کی طرح چھپ کے تماشا نہیں کرتے
پردے کی طرح پردۂ محمل نہیں رکھتے
ہر جوہرِ قابل کو وہ سرکار میں اپنی
رکھتے ہیں مگر پھر کسی قابل نہیں رکھتے
راحیل میاں! شمع نہیں، شعلہ ہیں شعلہ
محشر تو بپا رکھتے ہیں محفل نہیں رکھتے
راحیل فاروق
No comments:
Post a Comment