Monday 29 August 2022

سیلاب ہی سیلاب ہیں ساحل نہیں رکھتے

 سیلاب ہی سیلاب ہیں ساحل نہیں رکھتے

ہم درد تو رکھتے ہیں مگر دل نہیں رکھتے

آوارہ مزاجوں کو فقیروں کی دعا ہے

منزل نہیں رکھتے غمِ منزل نہیں رکھتے

کشکول نہ شایاں سہی دہلیزِ حرم کے

کیا کاسۂ سر بھی تِرے سائل نہیں رکھتے

آنکھوں ہی سے وہ کھینچتے ہیں دل کی طنابیں

بازو مِری گردن میں حمائل نہیں رکھتے

لیلٰی کی طرح چھپ کے تماشا نہیں کرتے

پردے کی طرح پردۂ محمل نہیں رکھتے

ہر جوہرِ قابل کو وہ سرکار میں اپنی

رکھتے ہیں مگر پھر کسی قابل نہیں رکھتے

راحیل میاں! شمع نہیں، شعلہ ہیں شعلہ

محشر تو بپا رکھتے ہیں محفل نہیں رکھتے


راحیل فاروق

No comments:

Post a Comment