وقتِ آخر کام جذبِ نا تمام آیا تو کیا
ہچکیوں کی شکل میں ان کا پیام آیا تو کیا
رہ گئی رندوں میں جب ساغر اٹھانے کی نہ تاب
اب تغافل آشنا ساقی بہ جام آیا تو کیا
وقت ہی پر لے کے ابھرے گا پیام صبح نو
ڈوبتے سورج کو تاروں کا سلام آیا تو کیا
لطف تو جب ہے کہ جلوہ ہو بقدر ظرف دید
بن کے برق طور وہ بالائے بام آیا تو کیا
آفتابِ صبحِ عشرت کی ضیائیں اور ہیں
شامِ غم لے کر اگر ماہِ تمام آیا تو کیا
میکدہ ویراں ہوا بیزار مے کش ہو چکے
اب اگر ساقی بہ حسنِ انتظام آیا تو کیا
رہ گیا قائم زلیخائے محبت کا وقار
یوسفِ معصوم پر گر اتہام آیا تو کیا
اڑ چکی جب نیند آنکھوں سے بہ فیضان جنوں
اب سحر آئی تو کیا، ہنگامِ شام آیا تو کیا
بات تو جب تھی کہ رہتے ہوش میں اپنے کلیم
جلوہ کھو جانے پہ انداز کلام آیا تو کیا
روشن بنارسی
No comments:
Post a Comment