آئے گا اس کو خاک دوپٹہ سنبھالنا
بچپن میں جس کو پڑ گیا کنبہ سنبھالنا
ایڑے کی مُرکیوں میں کہاں کھو گیا ہے تُو
طبلے پہ دھیان دے میاں ٹھیکہ سنبھالنا
بیٹی بِدا ہوئی ہے تو پھر سیکھنا پڑا
شملہ سنبھالتے ہوا حقہ سنبھالنا
پھر زور کی بریک لگی اور میں بچ گیا
بس ماں نے زیر لب کہا؛ اللہ، سنبھالنا
جیون نہیں یہ ساس بہو کی لڑائی ہے
ہے روز روز اک نیا فتنہ سنبھالنا
پردیس کو گئے ہوئے بچوں کی یاد میں
گُڈی سنبھالنی کبھی گُڈا سنبھالنا
مشکل تو ہو گی اے مِرے یارانِ خوش مذاق
لیکن صبوحی کے لیے پوّا سنبھالنا
پھینکا گیا ہوں خُلد سے میں تیری گود میں
دنیا! سنبھالا مجھے، دنیا سنبھالنا
ہمت نہیں تو نشوِ سخن چھوڑ دیجیے
آسان کب ہے پیٹ میں بچہ سنبھالنا
خود کو سنبھالنا بھی ضروری تو ہے مگت
اس عمر میں شہاب جی! کرتہ سنبھالنا
شہاب عالم
No comments:
Post a Comment