Tuesday 30 August 2022

بڑے سلیقے سے زندگی کو عذاب کر کے چلا گیا تھا

بڑے سلیقے سے زندگی کو عذاب کر کے چلا گیا تھا 

وہ کیا گیا تھا کہ میری دنیا کو خواب کر کے چلا گیا تھا 

ہم اسکی یادوں کی بکھری کرچوں کو اپنی پلکوں سے چن رہے تھے 

وہ اتنی عجلت میں تھا کہ سب کچھ خراب کر کے چلا گیا تھا 

یہ کس کے جانے کے بعد اب تک ہم اپنے اشکوں کو پی رہے ہیں 

یہ کون تھا؟ جو ہماری آنکھیں شراب کر کے چلا گیا تھا 

کم اہل ہوتا تو چھوڑ جانے میں پھر بھی تھوڑا سا وقت لیتا 

پڑھا لکھا تھا، تو جلدی کارِ ثواب کر کے چلا گیا تھا 

میں پھر بھی اس کو دعائیں دوں گا یہ میری فطرت کا ہے تقاضا 

جو میری راتیں، جو میری نیندیں، خراب کر کے چلا گیا تھا

وہ اپنے حصے کی نفرتوں پہ بھی آ کے تھوڑی سی بات کرتا 

محبتوں کا تو خیر سارا حساب کر کے چلا گیا تھا


التمش عباس

No comments:

Post a Comment