بڑے سلیقے سے زندگی کو عذاب کر کے چلا گیا تھا
وہ کیا گیا تھا کہ میری دنیا کو خواب کر کے چلا گیا تھا
ہم اسکی یادوں کی بکھری کرچوں کو اپنی پلکوں سے چن رہے تھے
وہ اتنی عجلت میں تھا کہ سب کچھ خراب کر کے چلا گیا تھا
یہ کس کے جانے کے بعد اب تک ہم اپنے اشکوں کو پی رہے ہیں
یہ کون تھا؟ جو ہماری آنکھیں شراب کر کے چلا گیا تھا
کم اہل ہوتا تو چھوڑ جانے میں پھر بھی تھوڑا سا وقت لیتا
پڑھا لکھا تھا، تو جلدی کارِ ثواب کر کے چلا گیا تھا
میں پھر بھی اس کو دعائیں دوں گا یہ میری فطرت کا ہے تقاضا
جو میری راتیں، جو میری نیندیں، خراب کر کے چلا گیا تھا
وہ اپنے حصے کی نفرتوں پہ بھی آ کے تھوڑی سی بات کرتا
محبتوں کا تو خیر سارا حساب کر کے چلا گیا تھا
التمش عباس
No comments:
Post a Comment