اک تو یہ زندگی ہی سراسر فریب ہے
اور اس پہ آگہی بھی برابر فریب ہے
اچھا اسے سمجھتے ہیں جو من پسند ہو
یعنی، ہمارا فہم و تدبر فریب ہے
تعبیر تیرے خواب کی معلوم ہے مجھے
تجھ کشتۂ گماں کا مقدر فریب ہے
رہنے دو ان کو عشق و جنوں کے سراب میں
تلخی ہے اتنی سچ میں کہ بہتر فریب ہے
اک اور آسماں بھی ہے اس آسمان پر؟
گویا یہاں فریب کے اوپر فریب ہے؟
ہے واقعہ کچھ اور ہی کاشف پسِ حجاب
جو آنکھ دیکھتی ہے وہ منظر فریب ہے
کاشف رفیق
No comments:
Post a Comment