Monday 29 August 2022

ہاتھ پھیلیں نہ زیادہ تو جھکیں گے بھی کم

 ہاتھ پھیلیں نہ زیادہ تو جھکیں گے بھی کم

اب تِرے شہر میں اے حسن! رکیں گے بھی کم

جُڑ گئے سلسلے اصنام پرستی سے اگر

خُوبرو چہرے خیالوں میں رہیں گے بھی کم

چاندنی شب کے کناروں پہ بُجھی جاتی ہے

جلنے والے یہاں اب اور جلیں گے بھی کم

کوئی خوشبو نہ ستارہ نہ قمر مانگیں تو

دلِ برباد! تِری مِثل بُجھیں گے بھی کم

بستیاں خوف سے ویران ہوئی جاتی ہیں

زرد ہوتے ہوئے گلفام دِکھیں گے بھی کم

اب یہاں کوئی تونگر نہیں کاسے کے لیے

گھر سے نکلے جو بھکاری تو بچیں گے بھی کم

پھر نہ یوں دھیان میں گم ہونگے بشارت کے لیے

خاور! افلاک سے اشعار گریں گے بھی کم


مرید عباس خاور

No comments:

Post a Comment